اسے اجازت ہے جی بھر کے الجھاۓ مجھے
شرط یہ ہے کہ پھر وہی سلجھاۓ مجھے
جھیل سی آنکھوں میں ڈوب جانے دے کبھی وہ
ادھورے لفظوں کے معنی بھی سمجھاۓ مجھے
ہم کہ زمانے کے اصولوں سے سدا کے باغی
اہل دل کے دساتیر کوئی پڑھاۓ مجھے
مان لے میری یا پھر منوا لے اپنی
شہنشاہوں کی طرح مقابل میں گراۓ مجھے
اب کون محبت میں بادۓ صباء ڈھونڈے
طوفان ء باد و باراں ہر سو ہیں ستاۓ مجھے
جانتا ہو گر وہ میرے جزبوں کی حقیقت
لازم ہے کہ فقط پھر نبھاۓ مجھے
وہ ملے مجھ سے میرے عکس کی صورت
سنے میری اور اپنی سناۓ مجھے
گزر نہ جائیں جاں سے ہی کہیں ہم
شوق میں اتنا بھی نہ آزماۓ مجھے
حرف ء دعا کی طرح میرے لب پہ ٹھہرنے والا
اپنے دست ء دعا میں بھی کبھی ٹھہراۓ مجھے
محبت گر تجارت ہے تو کرے سودا گری بھی
میری وفاؤں کے بھی ذرا دام بتاۓ مجھے
ہمیں منظور ہے عنبر ترک ء تعلق بھی
جینا اپنے بنا مگر سکھاۓ مجھے