اس آئنے میں دیکھنا حیرت بھی آئے گی
اک روز مجھ پہ اس کی طبیعت بھی آئے گی
قدغن لگا نہ اشکوں پہ یادوں کے شہر میں
ہوگا اگر تماشا تو خلقت بھی آئے گی
میں آئنہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا
اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی
موسم اگر ہے سرد تو پھر آگ تاپ لے
چمکے گی آنکھ خوں میں حرارت بھی آئے گی
کچھ دیر اور شاخ پہ رہنے دے صبر کر
پکنے دے پھل کو کھانے میں لذت بھی آئے گی
آنکھیں ہیں تیرے پاس تو پھر سطح آب پر
گہرائی سے ابھر کے عبارت بھی آئے گی
نکلیں چراغ ہاتھ میں لے کر گھروں سے لوگ
سورج کی رہ میں منزل ظلمت بھی آئے گی
یہ جانتا تو کاٹتا ساجدؔ نہ سائے کو
تلوار پر لہو کی تمازت بھی آئے گی