اس دبی دبی ہنسی میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
ان چمکتی آنکھوں میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید ٹوٹے ہیں خواب بری طرح سے
ان چپ لبوں کی حرکت میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید چاہا ہے کسی کو پوری طرح سے
اس پل پل سے دھڑکتے دل میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
اس مسکراہٹ پر کرتے ہیں لوگ یقین ایسے
اس ہر لمحے کی خاموشی میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید کچھ تو چھپا ہے ان آنسوؤں میں بےحد
ان بوندوں کی شدت میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید دکھا ہے کچھ تو جو پردے میں ہے
ان لمحوں کے درد میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
افسردہ کر کے کہتے ہیں گناہ کہاں
اس ٹپکتے خون میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
لفظوں کی اہمیت کچھ بھی نہ ہو جیسے
ہر لفظ کی آہٹ میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
اب آنسو بھی لگتے ہیں لوگوں کو پانی کے قطرے
ہر تکلیف کے لمحے میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے