اس سے بچھڑ کا دل رویا بہت تھا
بے بسی کا عالم سہانا لگا بہت تھا
اس نے تعارف تو کرایا نہیں اپنا
مگر وہ جانا پہچانا لگا بہت تھا
گھروندے بہا کر لے گیا ساتھ
پانی نے زور دکھلایا بہت تھا
نہیں ہو سکا جانبر مریض عشق
طبیب نے نسخہ آزمایہ بہت تھا
ہو گئے ہاتھ فگار ملتے ملتے
عشق کا روگ ہم نے لگا بہت تھا