اس سے کہہ دو
Poet: By: maqsood hasni, kasurاس سے کہہ دو
دو چار ستم اور ڈھاءے
یتیمی کا دکھ سہتے
بچوں کے نالے
ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری
جلتے دوپٹوں کے آنسو
عرش کے ابھی
اس پر ہیں
اس سے کہہ دو
زنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے
بےگنہی کی حرمت میں
امیر شہر کی لکھتوں کا
نوحہ کہتی ہیں
اس سے کہہ دو
ان کی پلکوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے
پھر بھی ہونٹوں پر
جبر کی بھا میں جلتے
سہمے سہمے سے بول
مسیحا بن سکتے ہیں
اس سے کہہ دو
کڑا پہرا اب ہٹا دے
زنجیریں کسی طاق میں رکھ دے
بھاگ نکلنے کی سوچوں سے
قیدی ڈرتے ہیں
آزاد فضاؤں
بےقید ہواؤں پر
سماج کی ریت رواجوں
وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے
پہروں پرپہرے ہیں
آءین کے پنے
تنکوں سے کمتر
رعیت کے حق میں
کب کچھ کہتے ہیں
سب دفتر
طاقت کی خوشنودی میں
آنکھوں پر پٹی باندھے
کانوں میں انگلی ٹھونسے
اپنی خیر مناتے ہیں
جورو کےموتر کی بو نے
سکندر سے مردوں سے
ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں
دن کے مکھڑے پر
راتوں کی کالک لکھ دی ہے
اس سے کہہ دو
دو چار ستم اور ڈھاءے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






