اس سے کہہ دو
دو چار ستم اور ڈھاءے
یتیمی کا دکھ سہتے
بچوں کے نالے
ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری
جلتے دوپٹوں کے آنسو
عرش کے ابھی
اس پر ہیں
اس سے کہہ دو
زنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے
بےگنہی کی حرمت میں
امیر شہر کی لکھتوں کا
نوحہ کہتی ہیں
اس سے کہہ دو
ان کی پلکوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے
پھر بھی ہونٹوں پر
جبر کی بھا میں جلتے
سہمے سہمے سے بول
مسیحا بن سکتے ہیں
اس سے کہہ دو
کڑا پہرا اب ہٹا دے
زنجیریں کسی طاق میں رکھ دے
بھاگ نکلنے کی سوچوں سے
قیدی ڈرتے ہیں
آزاد فضاؤں
بےقید ہواؤں پر
سماج کی ریت رواجوں
وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے
پہروں پرپہرے ہیں
آءین کے پنے
تنکوں سے کمتر
رعیت کے حق میں
کب کچھ کہتے ہیں
سب دفتر
طاقت کی خوشنودی میں
آنکھوں پر پٹی باندھے
کانوں میں انگلی ٹھونسے
اپنی خیر مناتے ہیں
جورو کےموتر کی بو نے
سکندر سے مردوں سے
ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں
دن کے مکھڑے پر
راتوں کی کالک لکھ دی ہے
اس سے کہہ دو
دو چار ستم اور ڈھاءے