اُس سے ہمیں بچھڑنا گوارا نہیں تھا
وہ شخص جو کبھی بھی ہمارا نہیں تھا
کیسے اُس کے پاس ہم چلے جاتے
جب اُس نے پلٹ کر پُکارا نہیں تھا
کس چیز سے تیری یوں ہم مثال دیتے
ایسی کوئی تشبیہہ و اِستعا رہ نہیں تھا
اِس بار ہم ہیں ڈوبے اِک ایسے سمندر میں
جس کا کوئی بھی کنارا نہیں تھا
مکرر تو سب مجھے کہتے رہے مگر
ان میں کوئی تیرا ‘‘دوبارہ‘‘ نہیں تھا
لوٹا دِیے ہیں میں نے اُس کے سارے تحفے
بھولنے کے لیے اُسے اور چارہ نہیں تھا
کچھ لمحہ تو ہم اُس کو تکتے رہے مگر
آنکھ جھپکی تو وہ منظر دوبارہ نہیں تھا
اِس بار اپنا بچنا کوئی معجزہ نہیں انجم
اِس بار اپنا کوئی سہارا نہیں تھا