اس شجر کا کبھی سایہ نہ ثمر دیکھا ہے
عشقِ بے مہرکی نذرسب کر دیکھا ہے
آگ کا دریا ہےکہیں کانٹوں بھری راہیں
ہررستہ ہی الفت کا پُر خارو خطر دیکھاہے
خزاں چھین لیتی ہے جیسے گلستاں کے رنگ
ہنستے ہوئے چہروں کو یوں چشمِ تر دیکھا ہے
کسی اور ٹھکانے پر اب دل ہی نہیں لگتا ہے
گستاخ نگاہوں نے جب سے تیرا در دیکھا ہے
زمانے بھر سے الجھتا رہا ہوں میں تن تنہا
ہرشخص کے ہاتھوں میں پتھر دیکھا ہے
تیری موجوں کے طلاطم سے اب ڈرنہیں لگتا
اے سمندر میں نے تیرا ہر بھنور دیکھا ہے
تیرے غم نے میرے فن کو جِلا بخشی ہے
میں نے جاگتی آنکھوں خود کو سُخن ور دیکھا ہے
گر ہو سکے تو میرا تماشہ ء قہر بھی دیکھو
اے ستم گر تونے میرا صبر دیکھا ہے
وصال ِ یار کی نہ اک لمحہ کبھی نوبت آئی
زندگی میں کچھ دیکھا ہےتو ہجر دیکھا ہے
عشق نے یہ معجزہ بھی دکھایا ہے رضا
نگاہ ِ یارمیں عقیدت کو منور دیکھا ہے