سو گئے لوگ کہ آزاد ہوُئے
کوئی آواز سلاسل میں نہیں
کیوں بھوُلے ہوُئے ہیں صدیوں سے، انداز بپھر کر چلنے کا
پیاسے دریاؤں کو مژدہ ہو، وقت آگیا برف پگھلنے کا
اپنی نظروں میں بھی ہم اک لفظِ بے مفہوم ہیں
اس نے دیکھا بھی تو کیا، اس نے نہ دیکھا بھی تو کیا
یہ اور بات، خُدا بھی نہ مُجھ کو یاد رہا
تری وفا پہ قیامت کا اعتماد رہا
نظر میں شرم ہے، لب نیم وا ہیں، چہرہ گلاب
سحر کی ساری صباحت ترے جمال سی ہے