اس نے یہ لکھ کر بھیجا ہے
Poet: saiyaan_sham By: saiyaan_sham, rawalpindiاس نے یہ لکھ کر بھیجا ہے
اب آپ مجھے فون مت کرنا
کوئی ایس ایم ایس مت کر نا
پلیز مجھے تنہا چھوڑ دیں
کیسے بتاؤں اس پاگل کو
کچھ رابطے وڑے نہیں جائے
کچھ رشتے عمر بھر چھوڑے نہیں جاتے
دکھ اور سکھہ دونوں ہی سنگ چلتے ہیں
کبھی تقدیر کے ہاتھوں ہم خود ہی ہار جاتے ہیں
جو نہیں چاہتے تب وہی کر جاتے ہیں
کیسے تجھے پاگل میں بتاؤں
ماؤں کے سنگ ان کے لال بھی تو چلتے ہیں
ابھی تو نادان ہے
تبھے تو لڑتا ہے
کبھی جو ملا موقع مجھے
تب تجھے سمجاؤں گی
کیا گزری ہے مجھ پر آج کے دن
اے میرے پاگل نادان بیٹے
اس دن تیری ماں بے گھر ہوئی تھی
پھر بھی تیری راہ میں کھڑی تھی
پر تجھے تو لوٹ جانا تھا اپنے دیس
پر میں مرتے دم تک تجھے نا بھول پاؤں گی
اب کسی اور کو اپنا بیٹا بھی نا کہ پاؤں گی
تو نہیں مانتا احساسات سے جڑے رشتے
اب یہ رشتہ میں اپنے اندر ہی چھپا لے جاؤں گی
کبھی ملا تو ضرور تجھے بتاؤں گی
اپنے آنچل میں تجھے چھپاؤں گی
مگر خود سے اب دستک نا دوں گی کبھی تیرے در پر
تیری کہیں باتیں اب میں نبھاؤں گی
بھلے ابھی میری یاد نا آئے تجھے
پر میرا دعویٰ ہے
اک دن تو لوٹ آئے گا
تب تک بہت دیر ہو جائے گی
تو مجھے دیکھ نا پائے گا
جب تک جیوں گی
تیری آس کے دیے جلاؤں گی
جب کبھی تو تھکا ہارا لوٹ کر آیا
تب تک میں دنیا سے چلی جاؤں گی
کبھی فرصت ملے آسمان کی طرف دیکھنا
تجھے ہر ستارے میں نظر آؤں گی
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






