اس پر لگی بہار کو کب تک میں دیکھتی
اک اجنبی کے پیار کو کب تک میں دیکھتی
پھولوں کے درمیان تو زندہ نہ رہ سکی
پاؤں میں چھبتے خار کو کب تک میں دیکھتی
وہ دور سے چلا گیا آنکھوں کو چوم کر
سانسوں کے انتشار کو کب تک میں دیکھتی
ڈسنے لگے تھے شام کو تنہائیوں کے غم
دل میں غموں کے غار کو کب تک میں دیکھتی
اک جس میں تیرے لمس کا شامل نہ ہو وجود
اُس رونقِ بازار کو کب تک میں دیکھتی
ساتھی تمہارے پیار کے رنگوں سے کھیل کر
اس گرد کوِ غبار کو کب تک میں دیکھتی
اس شہر میں تو پوچھنے والا نہ تھا کوئی
وشمہ ترے دیار کو کب تک میں دیکھتی