اس کا کوئی بھی کہا نہیں بھولا
یاد ہے سب کچھ ذرا نہیں بھولا
ہجر کا ذکر آتے ہی رو رو پاگل ہو جانا
آج تک اس کی وہ ادا نہیں بھولا
کیا ہوا تم کو گم سم سے کیوں رہتے ہو
سب کیا کرتے تھے گِلہ نہیں بھولا
مانا کہ بہت دور بہت دورآ گیا ہوں
پر آج بھی اس شہر کی فضا نہیں بھولا
میرے حصے کی خوشیاں بھی تم کو مِل جائیں
جو مانگی تھی میرے لیے دعا نہیں بھولا
سہیل اس کا وقتِ رخصت بس اتنا سا کہنا
اپنا خیال رکھنا تم جملہ نہیں بھولا