اس کی طرف سے کوئی اشارا نہیں رہا
وہ بحر آرزو میں ہمارا نہیں رہا
تڑپی ہیں میرے سامنے دنیا کی حسرتیں
آنکھوں میں عکس اب جو تمہارا نہیں رہا
سونے لگی ہوں پیار کی مٹی کو اوڑھ کر
بیتاب خواہشوں کا نظارا نہیں رہا
اب ڈوبنے کو ہے مری کشتی بھی دیکھ لو
دریائے کشمکش کا کنارا نہیں رہا
سب دوستوں نے چھین لیں خوشیاں نصیب کی
دشمن کوئی بھی جان کا مارا نہیں رہا
کیوں دو دلوں کے وشمہ مقدر یہاں ملیں
ہاتھوں میں جب وفا کا ستارا نہیں رہا