اس کے الفاظ وہ اس کے لہجے کا سراب
جینے نہیں دیتے جاگتی آنکھوں کے خواب
الفاظ کے جیسے دھیمی برسات کی جھلمل
وہ لہجہ کے مانند رنگ و بوئے گلاب
اپنے الفاظ سے میری سماعتوں کو دوام دے
گرچہ دہن کا گلاب ہو یا لہجہ کا عتاب
حسن و جوانی پہ بہت نازاں ہیں اپنی ماہ و آفتاب
گہن لگ جائے جب مگر کہاں رہتی ہے آب و تاب
جیتا ہوں تو مرتا ہوں مرتا ہوں تو جیتا ہوں
جانے کس موڑ پہ لایا ہے زندگی کا باب
سانس بھی آتی ہے مگر جاتا ہے حوصلہ
جیسے قضا کیلئے تڑپتا ہے ماہی بے آب
بے درد زمانے نے رسوا ہے بہت کیا
سنگ برسائے بے حد گھائل کیا بے حساب
غم دوراں سے اب تو نڈھال ہو گیا ہوں
ماند پڑ گیا ہے میرا حسن و شباب
اے خدا اپنے عرفان کا پردہ اٹھا دے اب تو
میں تیرا بندہ ہوں پھر کیوں رہے یہ حجاب