آج پھر بھٹک رہا ہوں میں
یہاں سے وہاںِ، اکیلا، اداس اور پریشاں
سچ کی جستجو میں سرگرداں
پھر وہی سوالِ جان گسل
پھر وہی معمہ لا ینحل
میں اک سراب ہی ہوں، چلو یہ مانتا ہوں میں
پر کسی تشنہ لب کو کب پکارتا ہوں میں
خود اپنی تسکین تشنگی کے لیے
جب کوئی بن بلائے آتا ہے
میں اسے مان کر رحمت خداوندی
میزبانی کے فرض کی خاطر
اپنے بازو پھیلائے جیسے ہی
اس کی جانب قدم بڑھاتا ہوں
وہ یکایک ٹھٹھک سا جاتا ہے
اس کی آنکھوں میں اپنے پن کی جگہ
ایک بیگانگی امڈتی ہے
اس کے چہرے کی مسکان دلآویز
ایک بیزار زاویے میں ڈھلتی ہے
میری تنہائیوں سے بے پرواہ
اپنے قدموں کا رخ بدلتے ہوئے
پھر پلٹ کے نفرت سے مجھ کو تکتے ہوئے
پوری سفاکی و بے رحمی سے
اپنا جرم اشتباہ نظر
کیوں میرے سر تھوپ جاتا ہے