اشک پی کر مسکرا لیتے ہیں لوگ
درد سینے میں چھپا لیتے ہیں لوگ
زندگی جب بوجھ بن جاتی ہے تو
موت کو سینے لگا لیتے ہیں لوگ
اپنی خود داری کا رکھنے کو بھرم
آہ ہونٹوں میں دبا لیتے ہیں لوگ
زہر پیتے ہیں یہ آخر کس لیے
اپنی ہستی کیوں مٹا لیتے ہیں لوگ
خواب جو پورے نہیں ہوتے کبھی
اپنی آنکھوں میں سجا لیتے ہیں لوگ
جب بھلا ئی کر کے بھی کچھ نہ ملے
تو برا خود کو بنا لیتے ہیں لوگ
تلخیوں سے کر کے سمجھوتہ کبھی
ہر تمنا کو سلا لیتے ہیں لوگ
جب خوشی رہتی ہو ان سے اجنبی
غم کو ہی اپنا بنا لیتے ہیں لوگ