دکھڑا وہ بے تکان سناتا چلا گیا
ہم کو بھی اعتبار سا آتا چلا گیا
تھی زندگی فریب نظر جانتا تھا میں
آنکھوں میں پھر بھی خواب سجاتا چلا گیا
ہر گام پر مجھے نیا اک راہبر ملا
ہر گام میری راہ بڑھاتا چلا گیا
شرمندگی کی آگ میں جلتا تو ہوگا وہ
یہ اطمینان دل کو دلاتا چلا گیا
ماّضی کے دھندلکوں میں کوئی عکس کھو گیا
یا دل کو ہی قرار سا آتا چلا گیا
شکوہ نہ تھا گلا بھی نہیں اور کچھ تھا جو
یک دم زبان یار پہ آتا چلا گیا
ہم نے کہا نہیں وہ مگر جان ہی گیا
شاید میں دل کو آنکھ میں لاتا چلا گیا
برسوں سے ایک نظم جو کاغذ پہ قید تھی
بے اختیار اس کو سناتا چلا گیا