افسوس جگر تم کچھ بھی کہو
اب دل نے بغاوت کر ہی دی
وہ قصہ کوئی اور ہی تھا
جو اس پے کسی نے کرامت کر ہی دی
برسات کی بھیگی راتوں میں
برسے آنکھ سینے نے خوشامد کر ہی دی
بہت سنبھالے پر پھر بھی بےصبر نکلے
آنسوؤں نے ملامت کر ہی دی
یہ ظلم حجام ہے تیز ہوا
ننھے پھول کی حجامت کر ہی دی
تم تو بڑے نکلے مہ کدے کے شیخ
رندوں کی تم نے امامت کر ہی دی
منع کیا تھا نہ پلٹ کے دیکھو ادھر
قلزم جدائی کے وقت قیامت کر ہی دی