بچھڑا ہے جب سے تو,اُداس تب سے جہان لگتا ہے
تو نہیں تو , ویراں سارا گلستان لگتا ہے
عجیب سی کشمکش ہے اب کہ ہجر میں تیرے
تیر جگر میں تو لہو آنکھوں سے رواں لگتا ہے
مانا کے رہنا نہیں یہاں کسی کو سدا کے لیے
پھر ڈولتا ہوا کیوں یہ ایمان لگتا ہے
لوٹ آؤ کہ میں بتا نہیں پاتا کیفیت اس غم کی
کہنے میں کم جو سہنے میں طوفان لگتا ہے
جانے کیا بات تھی ایسی تجھ میں جسے اب
یاد کر کے ماتم کنعاں ہر پیر و جواں لگتا ہے
سینہ کوبی ہو گیا ہے مشغلہ اب لیل و نہار کا
سینہ میرا تو امام باڑہ اب تیرا مکاں لگتا ہے
دے کر واسطہ دوستی کا تجھے کہتا ہوں دوست
لوٹ آؤ کہ بن تیرے بہت اُداس اُداس عثمان لگتا ہے