افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب اول اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز تب و تاب اول سوز تب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس رباب آخر
میخانئہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبئہ نادر کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مئے ناب آخر