حضرت انسان نے یہ کیسا تماشہ کیا اور کیا کر ڈالا
اقبال تیرے شہر کو دو بیٹوں کے لہو سے رنگ ڈالا
ظالموں نے کچھ ایسا کیا منیب اور مغیث کے ساتھ
حیوانوں کی درندگی کو بھی پیچھے چھوڑ ڈالا
بہت روئے چلائے اور گڑگڑائے تھے وہ
اللہ کا قرآن کا واسطہ دے رہے تھے وہ
کسی ایک کو بھی ان پر ترس نہ آیا
گناہ جو نہ کیا اس کی سزا پا رہے تھے وہ
لگتا ہے انسانوں کے روپ میں سب درندے تھے وہ
اس ہجوم انسان میں دراصل سب بھیڑیئے تھے وہ
شہادت ملی ان کو سب کے سامنے ایسی مثالی
اور سب کے سامنے اتنے سارے ان کے قاتل بن گئے وہ
شریفوں کی حکمرانی کی بات نہ کرنا مجھ سے اب
ایسے بے حس انسانوں کا ذکر نہ کرنا مجھ سے اب
میرے شہر کے لوگ تو جان بچاتے ہوئے جان دیتے ہیں
اس شہر کو تم ظالموں سے جوڑنا نہ اب
قائد کا شہر تو بدنام ہوہی گیا انو
اقبال تیرے شہر میں تو انسان ہی حیوان نکلے