الفتوں کا ہم نے یہ پایا صلہ
بڑھ گیا رنج و الم کا سلسلہ
جب زمانے کا چلن ٹھہرا جفا
دوست تیری بے رخی کا کیا گلہ
ساری سمتیں ایک سی جائیں کدھر
وقت شب صحرا میں بچھڑا قافلہ
یاد مجھ کو آ گیا وہ ، جب کبھی
پھول گلشن میں کوئ تازہ کھلا
میر و غالب کے ہیں ہم بھی معتقد
عشق کو ہم نے بھی مانا ابتلا
تجھ کو دعوا ہے مسیحائ کا پر
زخم دل تجھ سے تو میرا نہ سلا
بات زاہد جب کسی موضوع پہ کی
سلسلہ ہر بار اس سے جا ملا