آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں
سب زخموں کو سہہ جاتے ہیں
کرچی کرچی سوچیں انکی
بکھری بکھری باتیں انکی
چہرے پہ مسکان سجائے
سینے میں طوفان چھپائے
لب پہ جو آنے نہ پائیں
تعبیروں میں ڈھل نہ پائیں
وہ سب باتیں وہ سب سپنے
لفظوں میں یہ کہہ جاتے ہیں
ان کی باتیں انکے سپنے
تم کیا سمجھو تم کیا جانو
الفت کا منشور یہی ہے
دنیا کا دستور یہی ہے
جگ کی پیاس بجھانے والے
اکثر پیاسے رہ جاتے ہیں