ہر موج کے مقدر میں کیوں کنارا نہیں ہوتا
ٹوٹے جو نہ فلک سے وہ ستارا نہیں ہوتا
رکھتے کچھ تو بھرم اے دوست جہاں والے
ڈوبے اگر دوست تو کوئی سہارا نہیں ہوتا
ہر سمت سے پتھروں کی وہ بارش ہوئی توبہ
شیشے کے مکانوں میں گزارہ نہیں ہوتا
ہم اہل وفا ہو کر بھی ٹھرے یہاں مجرم
وہ اف بھی کرتے ہیں تو گوارہ نہیں ہوتا
لکھتے تو بہت ہیں اہل قلم اپنی زباں سے
لفظوں میں بیاں درد مگر سارا نہیں ہوتا
لفظوں کے جرم میں زباں رہی واسع
ممکن ہے میرا قاتل کو اشارہ نہیں ہوتا