پھر اس کوہ سے صدا آئی
سنبھالو وقت امتحاں آیا
حق و باطل کی لڑائی میں
اک موڑ صبر آزما آیا
مانوس سے بھیس میں
اجل کا پیغام آیا
کسی کے سر کی چادر چھن گئی
کسی کی زندگی کا سہارا
صبح جو نکلا گھر سے
وآپس نہ شام آیا
نفرتوں کی ہواؤں سے
بجھ گئے محبتوں کے چراغ
اندھیرا پھیل گیا چار سو
نہ شب آسماں پر چاند آیا
طفل معصوم کو پکڑاتے
اجل کا پروانہ
نہ ہاتھ کانپے اسکے
نہ دل میں رحم آیا
رضائے الہی کیلئے
یہ کیسا جہاد ہے
کہ چشم قدرت میں بھی
آنسو بھر آیا