اب میں تنہا بیٹھا خود سے باتیں کرتا ہوں
اور محفل میں چپ چاپ ہی بیٹھا رپتا ہوں
تیرے موسم ہجر نے اتنا حساس کر دیا ہے
ہوا بھی زرا تیز چلے تو رو پڑتا ہوں
تیری خوشبو آتی ہے میرے کمرے سے
درد بڑھنے لگے تو دیواروں سے لپٹ کر روتا ہوں
ھر رات میرے اندر کچھ مر سا جاتا ہے
ہر صبح پھر کسی امید پہ جی اٹھتا ہوں