انا کے ہاتھوں مجبور تھا بہت کھل کہ رویا نہ ہوگا
تنہائی کا درد اسپہ منکشف نہ تھا رات بھر سویا نہ ہوگا
میرے آنچل سے ڈھانپ دیا تھا اسکے چہرے کو
ایسا شریر جھونکا اس بام پہ پھر آیا ہوگا
میری چوڑیوں کی کھنک سے بن جاتی تھی شہنائی سی رات
خاموش رتجگوں میں کیسے دل بہلاتا ہوگا
جدا کرکے خود سے لوٹتے وقت اک نظر مڑ کر مجھے دیکھا تو ہوگا
کیوں صفائی کاحق نہیں دیا اسے خود پہ چلایا ہوگا
ناٹ لگاتے ہوئے نکٹائی کو میرا لمس محسوس کرتا تو ہوگا
دیکھ کر تروتازہ سرخ گلاب میرے جوڑےکا حسن یادآیا تو ہوگا
یوں تو تنہائی کے زخم سے گھائل ہے دل میرا مرہم اس نے بھی لگایا نہ ہوگا
بھول کر گاڑی کی چابی اپنی ہی جیب میں جانے کہاں کہاں سر کھپایا ہوگا
دھندلا نہ جاے عکس ماضی کی گرد سے میری تصویر عروسی کو چوماتو ہوگا
بچھڑکر کس حال میں ہو گی اس خیال سے دل گھبرایا ہوگا
کیسے ممکن ہو کہ لوٹ آئے وہ انگنت ترکیبوں سے لجھاہوگا
مجھ سے بچھڑنے کی کتنی جلدی تھیاسے لمحں کی طوالت نے سمجھایا ہوگا