اس کی ادائے دلنشیں جو دل کو بھا گئی
فرہاد کی اک آہ مجھے درپن دکھا گئی
لوہ قبر پہ ایک پتنگے کو دیکھ کر
خوشبو میرے مزار پہ شمع جلا گئی
خوشیوں کو ڈس لیا کسی زہریلے ناگ نے
غم کی اندھیر رات سویرے کو کھا گئی
سب کچھ تو کھو چکے تھے رہ زندگی میں ہم
بس اک انا بچی تھی جسے وہ گرا گئی
اشکوں کی لڑی ٹوٹ گری آسمان سے
شاید دیار عرش پہ میری دعا گئی
دھڑکن پہ کوئی قابو نہ سانسوں پہ اعتبار
جب سے کسی کی یاد جگر میں سما گئی
پھیلی ہوئی ہیں سسکیاں گلشن میں ہر طرف
یوں توڑ کر گلاب کو باد صبا گئی