میں جاتا ہوں دل کو تیرے پاس چھوڑے
میری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
باوجو دیہکہ پرو بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا
اندازہ وہ ہی سمجھے میرے دل کی آہ کا
زخمی کوئی ہوا ہو کسی کی نگاہ کا
کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں میری
جی میں یہ کس کا تصور آگیا
تو ہو وے جہاں مجھ کو بھی ہونا وہیں لازم
تو گل ہے میری جان تو میں خار ہوں تیرا
موت کیا آکے فقیروں سے تجھے لینا ہے
مرنے سے آگے ہی یہ لوگ تو مر جاتے ہیں
بعد مرنے کے میرے ہوگی میرے مرنے کی قدر
تب کہا جائے گا لوگوں سے وہ برساتیں کہاں
یوں تو ہے دن رات میرے دل میں اسکا خیال
جن دنوں اپنی بغل میں تھا‘ سو وہ راتیں کہاں
اسکی باتیں مجھ سے کیا پوچھو ہو تم
مدتیں گزریں کہ دیکھا بھی نہیں