اوروں سے تو ہنستے ہو نظروں سے ملا نظریں
ادھر کو نظر کوئی پھینکی بھی تو دزدیدہ
کیا کہوں تجھ سے ہمنشین دل میں
برچھی سی لگتی ہے وہ ترچھی نگاہ
پگھلا تمہارا دل نہ میرے حال پر کبھی
ہر چند روتے روتے میں نے نالے بہا دئیے
سیلاب اشک گرم نے اعضا میرے تمام
اے درد! کچھ بہا دئیے اور کچھ جلا دئیے
جفا و جور اٹھانے پڑے زمانے کے
ہوس تھی جی میں کسو ناز کے اٹھانے کے
وہ اشک نکلتا ہے میری چشم سے جس کا
ہر قطرہ کم ازپارہ الماس نہیں ہے
جفا و جور تو ظالم سبھی گوارہ ہیں
مگر یہ رسم جدائی ہے ناگوار مجھے
وہ سرخ لباس اس کے گلے میں نظر آیا
جس کے ہیں میرے دل میں پڑے اب تئیں چھالے
جی کی جی میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
دید وا دید ہوئی دور سے میرے اسکی
پر جو میں چاہا تھا سو بات نہ ہونے پائی