جب بھی مستی میں سر جھکایا ہے
سنگ در خود تڑپ کے آیا ہے
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے
جو یہاں نہیں تو وہاں سہی
بڑی مشکل سے میں نے راز جانا
میرا کعبہ تیرا نقش قدم ہے
کسی نے آنکھ کے پردے میں پردہ دار کو دیکھا
کسی نے دار پر چڑھ کر جمال یار کو دیکھا
تیری یاد میں ہوا جب سے گم تیرے گمشدہ کا یہ حال ہے
کہ نہ دور ہے نہ قریب ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے
بھٹک رہا تھا میں سود و زیاں کے صحرا میں
تیرے دیار میں لائی مجھے تیری خوشبو