اندر کا موسم دکھتی رگوں پے خود ہی آگ لگائے
اور دے کے سلامی سورج کو چاند کہیں کھو جائے
جلتے بجھتے شام سویرے خاموشی کا روپ بھریں
اور دن چڑھے آنگن کی دھؤپ ہر لمحے تڑپائے
فکر کا سایہ چہرے پے اور آنکھوں میں خواب نئے
سمیٹ کے اپنا ہر جزبہ وہ چپکے سے سو جائے
دکھ سمندر بند کھڑکی پے پہرؤں شام لٹائے
اور اپنی سوچ کے سارے دریا پلکوں تک لے آئے
وقت کے سارے فیصلوں کو ہر اک نے کیا قبول
اور تپتی ریت پے ہم نے۔ اپنے صبر کے پھول کھلائے