اندھیرا اِس لیے چھایا ہوا ہے
میرا سورج ابھی سویا ہوا ہے
میری آنکھیں یہ مجھ سے پوچھتی ہیں
تجھے پہلے کہاں دیکھا ہوا ہے
کسی پھتر کو شاہد چُھو لیا تھا
بدن ششے کا تھا ٹوٹا ہوا ہے
چھپایا دل میں تھا جو راز تو نے
تیری آنکھوں سے وہ افشاں ہوا ہے
تھکن آنکھوں کی بتلا رہی ہے
مسافر رات بھر جاگا ہوا ہے
کہاں پر ہونٹ رکھ دیے تھے
میرا سارا بدن نیلا ہوا ہے
تیری منزل ہے مسعود سچ کی منزل
تبھی تو راہ میں تنہا ہوا ہے