اندھیری رات کو چراغ لکھتا رہتا ہوں
پھر اپنے آپ سے بیز ا ر لگتا ر ہتا ہوں
یہ راہزن کیوں راتوں کو مارے پھرتے ہیں
میں کس کے ہاتھ سرِ شام لْٹتا رہتا ہوں
میں خود بساتا ہوں دل کو اجاڑ دیتا ہوں
پھر اس کے بعد یونہی ہاتھ ملتا رہتا ہوں
جو مجھ کو بھولنا چاہتا ہے بھْلا دیتا ہے
میں جس کو یاد کرتا ہوں، تو کرتا رہتا ہوں
اے نئی دوست تیری تازہ قربتوں میں بھی
اْداس رہتا ہوں، گھلتا ہوں، جلتا رہتا ہوں