انساں نے کیسا سماں کر رکھا ہے
اک ذرے کو اس نے جہاں کر رکھا ہے
انسان ہے وہ ناداں جس نے خود ہی
خود کو پابندِ زنداں کر رکھا ہے
زمیں بھی ہوتی اس پر بہشت سی لیکن
ہوائے نفس کو اس نے آسماں کر رکھا ہے
جنت انسان کے سامنے ہے لیکن
خود کو بے خانماں کر رکھا ہے
بڑی ہی بے تاب ہ ےروح جس نے ادراک
ٹھیکرے کو اپنا مکاں کر رکھا ہے