ان حکمرانوں کا ذرا دیکھو تو عالم درندگی
خون چوستے ہیں اور اسے کہتے ہیں بندگی
نفس نفس مر رہا ہے احساس زیاں سے
اب کہاں جاں ہے دئیے میں کہ دے روشنی
مار ہی تو دیا ہے گردش افلاک نے انسان کو
خوشی ملے بھی تو نہیں اس میں چاشنی
حالات نے دل بدل دیا خدا دل سے گیا نہیں
اس امیری سے تو اچھا ہے غم مفلسی
محبت چاند ندیا کی باتیں تم کرتے ہو
ان چہروں پہ بھی دیکھو چاند سی افسردگی
کچھ کہتے نہیں تو ان کو بے زباں نہ سمجھو
رکھتے ہیں مفلس لوگ بھی انا آہنی
گزار مفلس بھی لیتے ہیں دھواں دھواں سی زندگی
زندگی صرف سانس لینا ہے تو نہیں یہ زندگی
مفلس بھی زندگی سے منہ موڑ کر چل دیا
چلے تم بھی جائو گے اوڑھ کر موت کی اوڑھنی