سورج کرنوں سے
شبنم کھیچنے چلا تھا
کہ اس کی حدت نے
زیست کے ہونٹوں پہ
پیاس رکھ دی
جیون کا نم
خون جکر پی کر
ہستی کی ناتمام آرزوں پر
مسکرایا
آدم سٹپٹایا
حیات کا سفر
موت کی دہلیز تلک لے آیا
سوچ کا اک دیپ جلا
زیست مرتیو کے در کی
دربان کیوں بنی ہے
گاجر سیب کا تبادل سہی
سیب تو نہیں ہے
پیٹ سول کے سبب عناصر
اس کے پوست کی روح میں ہیں
جنم سے مرتی تلک
برسات کے موسم کی
آنکھ مچولی کے
ان دیکھے کھیل
ہم کیوں کھلتے ہیں؟