ان سے گلا کرنا اب بے کار ہے
جینا بھی آسان نہیں مرنا بھی دشوار ہے
چلن ہیں نرالے اس دور جدید کے
اب گلا شکوہ کرنا بھی بیکار ہے
رک گئے ہیں قافلے بند ہیں بام ودر
سامنے نفرتوں کی کھڑی دیوار ہے
ہو گیا ہے منصب تھاجو رقیب جاں
اسے بنانےمیں تقدیر کا کردار ہے
نہیں آتی روشنی چلچلاتی دھوب میں
چھایا ہوا ہے سر پر کچھ سایہ اشجار ہے