ان کے رخ پر نگاہ کر بیٹھے
ہم بھی خود کو تباہ کر بیٹھے
وہ تباہی خرید لیتا ہے
ان سے جو رسم و راہ کر بیٹھے
میرا افسانہ اہل دل سن کر
برملا ایک آہ کر بیٹھے
اور ہے بات ہم سے اوروں کی
آپ کیوں اشتباہ کر بیٹھے
دل محبت میں کس کی سنتا ہے
ہم کسے انتباہ کر بیٹھے
ہے ستمگر وہ غیرت یوسف
اور ہم ہیں کہ چاہ کر بیٹھے
تھا مخالف جو اے نصیر ! اپنا
ہم اسی کو گواہ کر بیٹھے