اور تو کچھ نہ مل سکا تیری چاہ میں
فقط عمر بھر کے لیے میں بدنام ہو گیا
ٹھوکریں کھاتا رہا در بدر بھٹکتا رہا
محبت کی بند گلیوں میں گمنام ھو گیا
چاند بھی اب کہیں نظر نہیں آتا
یہ اجڑا کیسا در و بام ہوگیا
پناہ مل نہ سکی ہوش والوں میں
میں پیمانوں سے چھلکتا جام ہو گیا
ڈھل نہ سکا غم ، اداس رہی زندگی
میرا جیون اندھروں میں چھپتی شام ہو گیا
تیری سنگت میں تو بہت خاص تھا
،کوئی نہیں جانتا مجھے میں عام ہو گیا
۔
تو اچانک یوں بچھڑ گیا تو جیسے
میں پختہ سے دیکھو خام ہو گیا