اَلف اَلف ہے اسے شین قاف کرتے نہیں
دل و دماغ میرے اختلاف کرتے نہیں
ذہین سانپ سدا آستیں میں رہتے ہیں
زباں سے کہتے ہیں دل سے معاف کرتے ہیں
یہ دل ہے کمرے کی بتی بُجھا کے سوتا ہے
مگر دماغ کا ہم مین آف کرتے نہیں
ذرا سی بات پہ ہفتوں اداس رہتے ہیں
اس آئینے کو کئی روز صاف کرتے نہیں
کہو تو اوس بچھا دیں سحر کی پلکوں پر
غزل، غزل ہے اسے ہم لحاف کرتے نہیں
خراج لیتے ہیں لیکن ذرا سلیقے سے
کسی وزیر کے گھر کا طواف کرتے نہیں
اسد سے کہیو کہ اب ترجمے حذف کر دیں
کہ ڈپلیکٹ کا ہم اعتراف کرتے نہیں