اُجالا کس طرح سے ہو گیا ادھر
یہاں تو روشنی لایا نہیں تھا
میں سمجھوتے کے ہاتھوں جان بوجھ کر
اُسے کہہ بھی کبھی پایا نہیں تھا
نہ سوئی ماں اسی مَدیَد خیال میں
کہ بیٹا تو ابھی آیا نہیں تھا
نہ پوچھو زندگی کیسے گُزاری
کسی نے رحم تک کھایا نہیں تھا
یقیں مانو ترے ملنے سے پہلے
کبھی گھر دیر سے آیا نہیں تھا
مُجھے بھیجا خُدا نے اِس جہاں میں
میں مرضی سے یہاں آیا نہیں تھا
نہ جانے اُس مکاں میں کیا بَلا تھی
جدھر کوئی گیا آیا نہیں تھا
تُجھے تو سامنے بھی دیکھ کر میں
نظر اپنی اُٹھا پایا نہیں تھا
زمانہ جِس کے پیچھے ہو گیا خوار
مُجھے وہ حسن تو بھایا نہیں تھا
ہم اِک دن ملتے ملتے یُوں بچھڑ گئے
نکل ارمان بھی پایا نہیں تھا
اچانک پھر مُجھے یاد آ گیا وہ
جسے برسوں بُھلا پایا نہیں تھا
کمائی سب لُٹا کر بھی جُنید تُو
خرید اِک بھی خُوشی پایا نہیں تھا