اُداسیوں کے یوںسلسلے نہیں ہوا کرتے
اگر وہ ہنس کے ملے نہیں ہوا کرتے
طلب گارِ وفا سے کوئی اِتنا تو پُوچھے
محبت میں کبھی تقاضے نہیں ہوا کرتے
اِس بے لوث عقیدے کو یونہی نہ سمجھ
یہ کوئی کھیل تماشے نہیں ہوا کرتے
وہ آج غیروں سے اپنے دُکھ بانٹتا پھرتا
بھری دُنیا میں اگر اپنے نہیں ہوا کرتے
سنگتراشوں سے گِلا پتھر اگر کریں تو
مثلِ مورت وہ یوں سجے نہیں ہوا کرتے
تیری اگر دید کی حسرت نہ رضا ہوتی
یوں تیرے در پے بیٹھے نہیں ہوا کرتے