اُدھر سے چُھوٹے یہاں پکڑے گے
وہاں رشتے تھے یہاں دار سبھی
بات بات پہ خراساں تو تو میں میں
لمبے چُولوں میں یہاں فنکار سبھی
انسان ہیں ہم کوسمجھتے تا حد زیادی
زبانوں میں رکھے ہیں تلوار سبھی
نہیں ممکن تا مرگ برگشت یہاں سے
امیدوارم ہیں میرے رشتہ دار سبھی
سکوں ہوا گرم دوھوپ سَرد موسم کی نظر
جی اُٹھتا ہوں جب آتی ہے آواز اچھے ہیں حالات ابھی
خود کو مار دیتا ہوں با خواستہ ھا نفیس میں
ماں کہتی ہے جب گھر کو دیکھنا بہن رہتی ہے ابھی