اپنوں کو بے وفا کہتا وہ چلا گیا
غمِ بے وفائی سہتا وہ چلا گیا
چھپ چھپ کے روتا تھا وہ اکیلا
تنہائیوں میں رہتا وہ چلا گیا
یوں چلی جدائی کی رُت کے سنبھلا نہ
سیلابِ دغابازی میں بہتا وہ چلا گیا
درد جب حد سے گزر گئے اُس کے
سسکتا ہوا ٹہلتا وہ چلا گیا
اُس کی خطاَ فقط اتنی سی تھی
صرف اسے ہی چاہتا وہ چلا گیا
رات کو نکلا تھا جہاں،کوئی دیکھ نہ لے
آہستہ آہستہ سہمتا وہ چلا گیا