اُف یہ تباہیاں ‘ اُف یہ بربادیاں
ہائے کبھی آباد تھے‘ہائے وہ آبادیاں
احساس اُڑا دو ‘یہ آس اب مِٹا دو
ہوتی نہیں ہیں موت کے گھر میں شادیاں
کیوں نہ بنیں سڑکوں کی خاک سی آخر
کونسی ہے جگہ‘ہم کہاں کی ہیں شہزادیاں
تم کھوج میں تہی اِنتہا پسندی کی انمول
خیر مقدم کرو‘لو آ گئی ہیں آندھیاں