اُنہیں یہ شوق ہے کتنا نئی راہوں پہ چلنے کا
اِرادہ باندہ بیٹھے ہیں وہ کانٹوں پہ چلنے کا
کسی سے پوچھ لیتے تو یوں پاؤں نہ جلتے
محبت نام ہے برھنہ پا شعلوں پہ چلنے کا
سوز دے کر یوں نجانے کیا سکوں ملتا ہے
سر ِ مقتل رقیب تجھے لاشوں پہ چلنے کا
ڈالی سے واسطہ رہتا ،خوشبو بھی دیئے جاتا
گر نہ لوٹتے مزہ وہ یوں پھولوں پہ چلنے کا
گر ہم کو خبر ہوتی تو رضا سنبھل کے رہتے
ہمیں نہ امکاں تھا تیرا وار دلوں پہ چلنے کا