اِس بُجھتی تنہائی میں
عمر گُزر رہی ہے
اُداسی چپکے سے سانسوں میں
اُتر رہی ہے
تنہائی اور ہو کا عالم
اور تیری یاد
ایسے میں وہ لمحے ادھوری ملاقاتوں کے
ماہ ؤ انجم کی پاکیزہ روشنی میں
شعر ؤ نغمہ بن کے دل پہ چھاتے ہیں
اندرونِ دل گنگناتے ہیں
خیالات کے جزیروں میں
تیرا چہرہ بن کے جگمگاتے ہیں
وہ لمحے ادھوری ملاقاتوں کے
اکثر مُجھے یاد آتے ہیں