اِک قدم کویٔ در پیش جب سفر ہوگا
کِسی بھی راہ ے اس کو نہ پھر مفر ہوگا
ہوا کے زور سے جو ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
مری طرح سے اکیلا کویٔ شجر ہوگا
اِسی امید میں پاؤں مرے فگار ہوۓ
کِسی گلی میں تو چھو ٹا سا اپنا گھر ہوگا
بناں کہے وہ مرے دِل کی بات جانے گا
مری وفا کا اگر اس پہ کچھ اثر ہوگا
یہ اور بات کہ کچھ کہہ سکا نہ محفل میں
ہماری چاہ میں تڑپا وہ رات بھر ہوگا
برہنہ پا جو چلے ساتھ سنگریزوں پر
رۂ حیات میں وہ میرا ہمسفر ہوگا
کبھی تو مجھ کو پکاریں گی منزلیں عذراؔ
کبھی تو ختم مرے دکھ کا سفر ہوگا