آئینہ
Poet: مرزا عبدالعلیم بیگ By: Mirza Abdul Aleem Baig, Hefei, Anhui, Chinaآئینہ بھی اب بولنے لگا ہے
جب بھی میں گزرتا ہوں اپنے کمرے سے
آتے جاتے مجھ سے پوچھتا ہے
یہ مجھ سے باتیں کرتا ہے
یہ میرے حالات پہ نکتہ چینی کرتا ہے
بلکل ایسے جیسے وہ جائزہ لے رہا ہو میرا
’کہاں گئی وہ مُسکراہٹ تیری؟‘
’ تیرے ماتھے پر شکن گہرے کیوں ہیں؟‘
’آنکھوں کی شرارت کدھر گئی؟‘
’وہ منچلا سا دل کہاں رہ گیا؟‘
کبھی تو بے تکلفی سے پوچھتا ہے
’ایسا کیا ہے جو کھو گیا ہے؟‘
’کوئی تجھ سے روٹھ گیا ہے؟‘
’کیسی کا انتطار ہے کیا؟‘
’کوئی دل توڑ گیا کیا؟‘
’کوئی تنہا چھوڑ گیا کیا؟‘
’کیسی کے وعدے ستاتے ہیں کیا؟‘
’کیسی کی بے وفائی تڑپاتی ہے کیا؟‘
اس آئینے کو بہت خاموش کروایا
چپ تو ہو جاتا ہے مگر دیکھتا رہتا ہے
خدا جانے یہ آئینہ اتنا پوچھتا کیوں ہے؟
خدا جانے یہ آئینہ اتنا بولتا کیوں ہے؟
More Sad Poetry






