یوں ہی کسی سے کسی کو عداوت نہیں ہوتی
اپنوں سے ایسے ہی تو بغاوت نہیں ہوتی
بدن کا اپنے سنوارنے سجانے سے فقط
روح کی میرے دوست نقاوت نہیں ہوتی
دنیا کوجو کی جائے دکھانے کے لئے
بخشش کا ذریعہ تو ایسی عبادت نہیں ہوتی
سبب کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا ہے ورنہ
کوئی بھی بات ایسے تو کہاوت نہیں ہوتی
نظر اپنی بھی ضرورتوں پہ رکھ کر جو کی جائے
بے مثل پھر کاشف وہ سخاوت نہیں ہوتی